بے جا سختی اور بچوں کا مزاج
میں نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرواتے وقت اچھی طرح اطمینان کرلیا تھا کہ ان پر بے جا سزا اور سختی نہ ہوگی لیکن مجھے بے حد افسوس ہوا ہے کہ روز بچے کو کسی نہ کسی معمولی سی غلطی کی سخت سزا ملتی ہے۔ بچے دوسرے دن سکول جانے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے والد ناراض ہوتے ہیں۔ اردگرد کوئی اور اچھا سکول بھی نہیں ہے جب سے بچے سکول جانے لگے ہیںبہت زیادہ چڑچڑے اور بدمزاج ہوگئے ہیں۔ کیا اس کی کوئی نفسیاتی وجہ ہے۔ (راحیلہ‘ لاہور)۔
مشورہ: یہ تو حقیقت ہے کہ سزا اور بیجاسختی بچوں کے مزاج پر برا اثر ڈالتی ہے۔ آپ سکول کی پرنسپل سے بات کریں کہ وہ اپنے سکول میں اساتذہ کی تربیت کرسکیں‘ بغیر ان کو جسمانی اذیت دئیے ہوئے پڑھائیں اور اچھا انسان بنائیں۔ آپ گھر پر بچوں پر زیادہ توجہ دیں‘ انہیں پڑھائیں اور بڑوں کاادب احترام سکھائیں۔ وہ تعلیم میں اچھے ہوں گے تو سزا سے بچے رہیں گے۔ اگر پھر بھی سکول میں سزا ملے تو پھر پرنسپل سے بات کریں۔ ہمارے ملک میں بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کارجحان زیادہ ہے۔ اس منفی روئیے کے خاتمے کیلئے بار بار کوشش کرنی چاہیے۔
ہوگیا نا پھر اختلاف
؎میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں۔ اس دوران میں بے شمار مسائل کا شکارر ہی۔ ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے۔ جس بات پر مجھے اتفاق ہوتا ہے‘ اس پر وہ اختلاف کرتے ہیں جس پر انہیں اتفاق ہوتا ہے۔ اس پر میں اختلاف کرتی ہوں۔ جھگڑا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ اب تو ہمارے درمیان اتنی تلخ گفتگو ہوتی ہے کہ پڑوسی سنتے ہیں۔ میں کہتی ہوں کہ اپنے گھر والوں سے مسائل کا ذکر کروں۔ شوہر کہتے ہیں کہ کسی سے بھی گھر کے حالات اور آپس کے تعلقات پر بات نہ کی جائے۔ ہوگیا نا پھر اختلاف۔ (صائمہ شکیل‘ حیدرآباد)
مشورہ: کئی لوگ اپنے گھر کے مسائل کا اور خاص طور پر تعلقات کا کسی سے ذکر کرنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں دوسرے ان کے معاملات میں کوئی مدد یا رہنمائی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح بعض لوگ گھر کی چھوٹی چھوٹی سی باتیں باہر کہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ دونوں روئیے ٹھیک نہیں۔ پہلی کوشش تو ایک دوسرے سے آہستہ آواز میں گفتگو کے ذریعے معاملات سلجھانے میں ہونی چاہیے۔ اچھا ہے گھر کی بات گھر میں رہے اور تعلقات بھی اچھے رہیں لیکن جب کوئی ایک دوسرے پر حاوی آنے کی کوشش کرے اور معاملات بگڑتے چلے جائیں تو کسی ماہر سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
نفسیاتی مسئلہ
چھ ماہ سے طبیعت بہت خراب ہے۔ سر میں درد اور پٹھوں میں کھچاؤ رہتا ہے۔ ہائی بلڈپریشر کی شکایت ہے۔ کئی مرتبہ ہسپتال میں داخل بھی رہ چکا ہوں۔ گھر آتے ہی بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔ غصہ بھی بہت آتا ہے۔ کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نے بھی دوائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب تو پورا جسم کانپتا ہے۔ اپنے گاؤں جاتا ہوں تو طبیعت بہت حد تک ٹھیک رہتی ہے۔ یہاں آتے ہی پھر ویسی ہی حالت ہوجاتی ہے۔ (صائم حسن‘ اسلام آباد)۔
مشورہ: انسان کا قلبی نظام تمام جذباتی رویوں اور اچھے بُرے تجربات سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ذہنی دباؤ‘ خوف‘ مسلسل کام یا آرام کی حالتوں کے مطابق اس نظام میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً خوشی‘ غصہ یا خوف میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ بعض اوقات بلڈپریشر کے بہت سے مریضوں میں ان کے مرض کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ایسی حالت میں ان کا اصل مسئلہ اپنے جارحانہ جذبات اور ذہنی کشمکش کی وجہ سے جان کر ان کیفیات سے نجات حاصل کرنا ہے۔ آپ نے جسم کانپنے کا ذکر کیا۔ اس سلسلے میں اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں کیونکہ نفسیاتی امراض کی دواؤں کے مضراثرات بھی ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں جسم میں کپکپاہٹ ہوسکتی ہے۔ نفسیاتی امراض میں جسمانی امراض کی طرح صرف دواؤں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے علاج میں مشاورت بھی اہم ہوتی ہے۔
مجھے سکون نہیں
میں گھر میں رہوں یا گھر سے باہر‘ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کچھ بُرا ہوجائے گا۔ ذہن میں ہر وقت الٹے سیدھے خیالات آتے رہتے ہیں۔ مثلاً اپنے بارے میں موت کے خیالات آتے ہیں۔ میرا کمرہ چھت پر ہے‘ وہاں جاتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ڈر لگتا ہے‘ دماغ پر وہم چھایا رہتا ہے‘ مجھے سکون نہیں۔ (انعم‘کراچی)۔
مشورہ: موت کا خوف فطری ہے اگر لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو کی جائے تو تقریباً سب ہی اس سلسلے میں بہت حد تک تشویش یا ڈر کا اظہار کریں گے لیکن ہر وقت موت کا خوف ذہن پر مسلط رہنا اور معمولات زندگی متاثر ہوجانا‘ صحت خراب رہنا کوئی خوشی محض اس خوف کے سبب محسوس نہ کرنا کہ ابھی کچھ بُرا ہونے والا ہے۔ اس طرح کا ڈر اور احساس مریضانہ ہی ہوسکتا ہے۔ آپ ایک قسم کے فوبیا کاشکار ہیں۔ اپنی زندگی میں سکون لانے کیلئے اس سے نجات ضروری ہے۔ غور کریں کتنی مرتبہ پریشان کن حالات آئے اور کتنی مرتبہ پورے ہوئے۔ شاید ایک بار بھی نہیں‘ پھر تو یہ غیرحقیقی ہوئے‘ توآئندہ ایسے خیالات کی پروا ہی نہ کریں۔ یہ خوف وہم یا ڈر آپ کے تخیل کی پیداوار ہے۔ ورنہ اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مضبوط قوت ارادہ کی مدد سے اپنے دل و دماغ سے ہر طرح کا غیرفطری خوف نکال دیں۔ برناڈشا نے کہا: ’’خوف کی اتنی ہی مقدار مناسب ہے جتنی سے ہم اپنی حفاظت اور ترقی کا شعور رکھتے ہیں‘ اس سے زیادہ خوف ہماری صحت کو ختم کردیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں